غروبِ محبت کی کہانی -
وہ اسٹڈی روم میں اسے دیکھنے آئی تھی جیسے کہ اکثر وہ اسے چھپ کر جھانک جھانک کر دیکھ لیا کرتی تھی… وہ دو بار اسے دیکھ کر گئی تھی اور وہ کتابیں سامنے کھولے ایک ہی انداز سے بیٹھا خود میں گم تھا،اپنے ہاتھ سے بنائی کافی پینا بھی بھول گیا تھا،کافی سامنے رکھے رکھے ہی ٹھنڈی ہو چکی تھی،وہ اس کے پاس گئی اس کا شانہ ہلا کر اسے متوجہ کیا۔
”تمہاری کافی ٹھنڈی ہو چکی ہے… کہاں گم ہو…؟“
اس نے بہت نرمی بہت محبت سے کہا تھا وہ جانتی تھی وہ تھک جاتا ہے جاب کرتا ہے پڑھتا ہے… اسے یہ فکر بھی تھی کہ وہ اس کے ساتھ خوش نہیں ہے۔
اس نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جیسے یاد کر رہا ہو کہ وہ کون ہے اور وہاں کیا کر رہی ہے۔
”یو بیچ…“ وہ حلق کے بل چلایا… اس فلیٹ میں یہ گالی بری طرح سے گونجی،اس کے شانے پر رکھا اپنا ہاتھ اس نے جھٹکے سے اٹھایا…
”باسٹرڈ… دفع ہو جاؤ یہاں سے“
وہ دو قدم پیچھے ہٹی گری نہیں لیکن گر ہی گئی۔
اس نے دو اور گالیاں دی… اس کی آنکھیں دھواں دھواں ہو رہی تھیں اس کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ اسے اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دے گا۔
”تم نے مجھے بیچ کہا…“ اسے غصہ نہیں آیا تھا صدمہ بہت بری طرح سے ہوا تھا۔
”تم ہو…“
”تم… مجھے ایسے گالی کیوں دے رہے ہو“اس کی گھٹی گھٹی آواز نکلی۔
”خدا کیلئے جاؤ یہاں سے… مجھے اکیلا چھوڑ دو… نکل جاؤ یہاں سے…“ اس نے اپنا سر تھام لیا۔
”کیا ہوا ہے تمیں…؟ وہ خود کو دی جانے والی گالی کو بھول کر اس کیلئے فکر مند ہوئی۔
”کہا نا جاؤ… مجھے تمہاری شکل نہیں دیکھنی۔“
”تمہیں اپنی بیوی کی شکل نہیں دیکھنی…؟“ چوٹوں میں سے ایک اور نئی چوٹ لگی،وہی شکل جس پر اسے بہت ناز تھا جو بہت پیاری من موہنی تھی۔
”خدا کیلئے جاؤ یہاں سے… چلی جاؤ… چھوڑ دو مجھے…“ اس سب سے اس کا مطلب صرف کمرے سے نکل جانا ہی نہیں تھا اور یہ اس نے جان لیا۔
”میں کیوں جاؤں تمہیں چھوڑ کر… نہیں جاؤنگی۔
“
”کیوں نہیں جاؤ گی… کوئی نہ کوئی تو ہوگا ہی جس کے پاس تم جا سکو… کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تو چھپا کر رکھا ہی ہوتا ہے نا…“
وہ ٹھیک ہی سمجھی تھی اس کا مطلب کچھ اور ہی تھا،وہ اپنی کنپٹی مسل رہا تھا وہ جس بوجھ کے زیر اثر تھا وہ بوجھ اسے دکھائی دے رہا تھا۔
”کوئی نہیں ہے میرا… صرف تم میرے ہو…“ وہ اس کے رویے پر دکھ سے چلانے لگی کتنے آرام سے وہ ہر بار کہہ دیتا تھا چلی جاؤ… وہ ایک بار بھی اسے اپنانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔
”چلاؤ مت“ اپنا سر تھامے وہ کمرے سے نکل گیا… وہ نہیں جاتی تھی تو وہ جا رہا تھا… وہ نہیں نکل رہی تھی تو وہ نکل جائے گا۔ اپنے پیچھے وہ اپنی دی گالیوں کی بازگشت چھوڑ گیا… جو اسے ہی دی جانی چاہئے تھیں کیونکہ وہ اس سے اتنی زیادہ محبت کرتی تھی کہ اسے پانے کیلئے کچھ بھی کر سکتی تھی اور اس نے وہ سب کہا تھا… اسے پانے کیلئے حوریہ نے سب کچھ کیا تھا… وہ اب بھی اسے پانے کیلئے سب کچھ کرے گی… وہ اس کے آگے بچھ جائے گی کہ وہ اس پر چلے… اسے روند ڈالے لیکن سب اسی کے ساتھ کرے… وہ اس سے جتنا دور جائے گا وہ اتنی ہی تیزی سے اس کے پیچھے بھاگے گی۔
ایک بار وہ الگ دوسرے کمرے میں سویا تو اس نے معمول ہی بنا لیا،وجہ بے وجہ وہ خود کو دنوں اس سے الگ رکھتا،کبھی اس سے بات کر لیتا کبھی نہ کرتا… وہ اس کے آس پاس رہنا چاہتی،وہ اس سے دور ہونا چاہتا… جیسے وہ اس کے ساتھ زندگی گزار کر تھک چکا ہے… ایک بدترین غلطی کر چکا ہے… بہت سے دن وہ اس کے اس رویے کو برداشت کرتی رہی پھر وہ اس سے بات کرنے اس کے پاس آ گئی… کتابیں سامنے رکھے وہ صرف پڑھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا… وہ ویرانی جو اس گھر میں تھی ان دونوں کے درمیان تھی اس کی آنکھوں میں بھی دیکھی جا سکتی تھی۔
”میں تم سے بات کرنا چاہتی ہوں۔“
اس نے آواز پر صرف نظر اٹھا کر ہی دیکھا۔
”میرا دماغ شل ہو گیا ہے یہ سوچ سوچ کر کہ تم کیا چاہتے ہو۔ میں کیا کروں کہ تمہیں اچھی لگوں… تم مجھ سے بات کرو،میرے ساتھ مل کر مسکراؤ… مجھے ایسا کیا کرنا چاہئے؟ تم جو کہو گے میں وہ کرونگی،جیسے کہو گے ویسے ہی کرونگی،میں خود کو اس گھر میں بند کر لونگی،میں وہ پہنوں گی جو تم چاہتے ہو… وہ سنوں گی جو تم بولو گے… میں تمہارے ہر حکم کی تعمیل کرونگی،میرا یقین کرو میں سب کر لونگی… تم کہتے جاؤ میں کرتی جاؤنگی،بس مجھ سے محبت کرو… مجھ پر رحم کرو… اس گھر میں میری دنیا آباد کر دو… تم جانتے ہو تم ہی میری دنیا ہو… ایک بار کوشش تو کرو… میرے لئے بھی کچھ کرو… یا مجھے ہی سب کرنے دو…“
اتنے اعتراضات پر بھی اس نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا… اور بس
”میں نے تمہارے لئے اپنی اسٹڈیز چھوڑ دی… تاکہ میں تمہارے ساتھ رہ سکوں… مجھے زندگی کے وہ پل نہیں چاہئے تھے جو تمہارے بغیر گزرتے… لیکن اس گھر میں تمہارے ساتھ رہ کر بھی میں تمہارے بغیر ہی رہ رہی ہوں… ہماری شادی کو ایک سال بھی نہیں ہوا اور تم نے اپنا بیڈ روم الگ کر لیا ہے… تمہاری بیوی ماں بننے والی ہے اور تم اس کی پرواہ کئے بغیر اسے جذباتی صدمے دیتے ہو… تم میرا خیال نہیں رکھ سکتے میرے ساتھ میرے پاس تو رہ سکتے ہو… محبت نہیں کر سکتے ہمدردی تو کر سکتے ہو… کچھ تو کر ہی سکتے ہو گے…؟؟
……………….
”میں کچھ نہیں کر سکتا حوریہ… میں خود بے اختیار ہو چکا ہوں… میرا یقین کرو… ہماری زندگیوں میں جو کچھ چل رہا ہے یہ سب ٹھیک نہیں ہے،میرے ساتھ بھی کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا،مجھے تم سے شادی کرنی ہی نہیں چاہئے تھی… یہی میری غلطی ہے… یہ بہت بڑی غلطی کی میں نے… میں کسی بھی اور انسان کو زندگی میں شامل کرنے کے قابل ہی نہیں رہا،میں عورت سے اب کبھی بھی محبت کر ہی نہیں سکتا… میرے پاس اس کا صرف ایک ہی حل ہے… تم طلاق لے لو مجھ سے مجھ سے علیحدگی ہی بہتر ہے تمہارے لئے… اس بچے کو بھی تم رکھ لینا… ابھی وقت ہے تم اپنی زندگی میں کسی اور کو شامل کر لو… تمہارا حق ہے کہ کوئی تم سے محبت کرے… وہ صرف تمہارا ہو…“
”تم مجھ سے علیحدہ ہونا چاہتے ہو؟؟ اس کی جان نکلی۔
“
”تمہیں مجھ سے ہو جانا چاہئے“ اس نے نظریں چرائیں۔
”صرف اس لئے کہ مجھے تم سے شکایتیں ہیں؟ تم انہیں دور کرنے کی بجائے مجھے خود سے علیحدہ ہونے کیلئے کہہ رہے ہو“
اس نے غم ناک نظروں سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا۔
” تم میرے ساتھ رہنے کیلئے کوشش بھی نہیں کر سکتے؟ تم ایک شوہر ایک باپ ایک دوست… کچھ بھی نہیں بن سکتے؟
”مجھے نہیں معلوم“ اس نے بے قراری سے آس پاس دیکھا۔
”تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں… جہاں جہاں بات میری آئے گی تمہیں کچھ بھی معلوم نہیں ہوگا۔“
”ہاں! مجھے کیسے معلوم ہو سکتا ہے… کیسے…؟ وہ چلایا وہ سہم کر اسے دیکھنے لگی… وہ اس سے شکایت بھی نہیں کر سکتی کیونکہ اس کا انجام اس کی طرف سے شاید علیحدگی کی صورت میں سامنے آئے گا… اب ہر بار اس کے سوال کرنے پر وہ اسے علیحدگی کا جواب دے گا… وہ اسے کہے گا کہ ہاں چلی جاؤ… اور وہ جا نہیں سکے گی…
”میں نے تم سے کہا تھا مجھے شادی نہیں کرنی… کسی سے بھی… ہم دونوں نے دیکھ لیا اس شادی کا انجام…“
”اس تعلق کو یہ انجام تو تم دے رہے ہو… ورنہ ہمارے تعلق کا یہ انجام بہرحال نہیں…“
”انجام تو اچانک سے ہی سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں… پھر سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔
“
”میں کچھ بھی ختم ہونے نہیں دونگی…“
”تم خود ختم ہو جاؤ گی… جیسے میں ہو رہا ہوں“ یہ بات اس نے اس سے نہیں کی تھی… خود سے بھی نہیں کی تھی،یہ یقینا اس جذبے کیلئے ہوگی جو دونوں کے پاس الگ الگ صورتوں میں تھا… ایک کا بڑھتا جا رہا تھا ایک کا مٹتا جا رہا تھا۔اس کی اس بڑبڑاہٹ کو سن کر وہ ایک لفظ نہیں بول سکی۔
”کیا یہی وہ انسان تھا جس کی اس نے چاہ کی تھی…؟ جو اظہار کے نام پر یہ سب کہے گا… جو محبت کے نام سے ہی چڑے گا… اور اس کو کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ کوئی اس کی محبت میں کس قدر غرق ہے۔
شکست خوردگی سے چلتی وہ اپنے بیڈ روم میں آ گئی،ایک گھر میں رہتے ہوئے وہ اسے یاد کر رہی تھی،ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے وہ اسے دیکھنے کیلئے ترستی تھی… یہ سب کچھ ساتھ رہتے ہوئے تھا اگر وہ اس سے علیحدہ ہو گئی تو وہ مر ہی جائے گی۔
”کاش میں مر ہی گئی ہوتی اس شخص سے ملنے سے پہلے“ اس نے خود کو کوسا۔
###
اس نے ٹھیک کہا تھا کہ اس کا خود پر اختیار نہیں… حسام کی پیدائش سے بھی کچھ فرق نہیں پڑا تھا،البتہ جب وہ چند ماہ کا ہوا تو اس نے حسام کو اپنے بیڈ روم میں اپنے ساتھ سلانا شروع کر دیا تھا،رات کو وہ جب اٹھ کر روتا تو وہ خود ہی اسے بہلاتا اور فیڈر بنا کر دیتا… وہ حسام کو اس کے پاس لے کر نہیں آتا تھا… وہ اٹھ کر آ بھی جاتی تھی تو بھی وہ یہی کہتا تھا کہ وہ کرلے لگا سب… وہ جا کر سو جائے… وہ چلی جاتی اور جاگتی رہتی… وہ تقریباً اس کا ہاتھ جھٹک دیتا تھا کہ میرے بیٹے سے دور رہو۔
حسام کی دادو چند ماہ ان کے ساتھ رہ کر گئی وہ چند ماہ ہی بھرم بنائے رکھنے میں اچھے گزر گئے… ان کے جاتے ہی وہ پھر سے صرف حسام کا ہو گیا۔ اس نے صرف حسام کو ہی اپنا ساتھی بنا لیا تھا،رات گئے تک اس سے باتیں کرتا تھا… اسے سینے سے لگائے رکھتا تھا،ایک رات وہ دیر تک روتا رہا… اس نے کئی بار اس سے کہا کہ حسام کو اسے دے دے مگر اس نے ذرا نرمی سے اس کا ہاتھ پرے کر دیا۔
”میں سنبھال لونگا حسام کو تم جاؤ…“ وہ اکیلے ہی اسے سنبھالنا چاہتا تھا وہ اکیلے ہی سب کچھ کرنا چاہتا تھا۔
”تم نے خود کو الگ تھلگ کیا ہی تھا… میرے بیٹے کو بھی مجھ سے الگ کر رہے ہو۔“
”یہ میرا بیٹا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ یہ اپنے باپ کے زیر سایہ پرورش پائے…“ اس کا وہی پرانا سخت انداز تھا۔
”یہ اپنی ماں کے زیر سایہ بھی بڑا ہو سکتا ہے…“
”اس کی ماں ایک عورت ہے“ …
”تمہاری ماں بھی عورت ہی ہے۔
“
”میری ماں دنیا کی پہلی اور آخری عورت ہے جس پر میں اعتبار کرتا ہوں۔“
”اوہ… تو یہ بات ہے…“ اگلی سانس حوریہ کے سینے میں گھٹنے لگی اس کا دم نکلنے لگا ”ہر ماں پر اعتبار کیا جاتا ہے…“ آواز بمشکل نکلی۔
”ہاں ماں پر… اور تم میری ماں نہیں ہو…“
”تم نے اتنی اذیت ناک باتیں کہاں سے سیکھ لی ہیں…“
حسام کو یہ باتیں مت سیکھا دینا…“
……………………………….